Na Mehrab e Haram Samjhe Na Jane Taaq e ButKhana
Na Mehrab e Haram Samjhe Na Jane Taaq e ButKhana
Jehan Daikhi Tajale Ho Gaya Qurban Parwana
نہ محراب حرم سمجھے نہ جانے طاقِ بتخانہ
جہاں دیکھی تجلی ہو گیا قربان پروانہ
جہاں دیکھی تجلی ہو گیا قربان پروانہ
دلِ آزاد کو وحشت نے بخشا ہے وہ کاشانہ
کہ اک درجانبِ کعبہ ہے اک در سوئے بتخانہ
کہ اک درجانبِ کعبہ ہے اک در سوئے بتخانہ
بنائے میکدہ ڈالی جو تو نے پیر میخانہ
تو کعبہ ہی رہا کعبہ نہ پھر بتخانہ بتخانہ
تو کعبہ ہی رہا کعبہ نہ پھر بتخانہ بتخانہ
کہاں کا طور مشتاق لقا وہ آنکھ پیدا کر
کہ ذرّہ ذرّہ ہو نظّارہ گاہِ حسن جانانہ
کہ ذرّہ ذرّہ ہو نظّارہ گاہِ حسن جانانہ
خدا پوری کرے یہ حسرت دیدار حسرت کی
کہ دیکھوں اور تیرے جلووں کو دیکھوں بے حجابانہ
کہ دیکھوں اور تیرے جلووں کو دیکھوں بے حجابانہ
شکست توبہ کی تقریب میں جھک جھک کے ملتے ہیں
کبھی پیمانہ شیشہ سے کبھی شیشہ سے پیمانہ
کبھی پیمانہ شیشہ سے کبھی شیشہ سے پیمانہ
سجا کر لخت دل سے کشتیٔ چشم تمنّا کو
چلا ہوں بارگاہِ عشق میں لے کر یہ نذرانہ
چلا ہوں بارگاہِ عشق میں لے کر یہ نذرانہ
کبھی جو پردۂ بے صورتی میں جلوہ فرما تھے
انہیں کو عالم صورت میں دیکھا بے حجابانہ
انہیں کو عالم صورت میں دیکھا بے حجابانہ
مری دنیا بدل دی جنبش ابروئے جاناں نے
کہ اپنا ہی رہا اپنا نہ بیگا نہ بیگانہ
کہ اپنا ہی رہا اپنا نہ بیگا نہ بیگانہ
جلا کر شمع پروانے کو ساری عمر جلتی ہے
اور اپنی جان دے کر چین سے سوتا ہے پروانہ
اور اپنی جان دے کر چین سے سوتا ہے پروانہ
کسی کی محفل عشرت میں پیہم دور چلتے ہیں
کسی کی عمر کا لبریز ہونے کو ہے پیمانہ
کسی کی عمر کا لبریز ہونے کو ہے پیمانہ
ہماری زندگی تو مختصر سی اک کہانی تھی
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ
بھلا ہو موت کا جس نے بنا رکھا ہے افسانہ
یہ لفظ سالک ومجذوب کی ہے شرح اے بیدم
کہ اک ہشیار ختم المرسلیں اور ایک دیوانہ
کہ اک ہشیار ختم المرسلیں اور ایک دیوانہ
No comments:
Post a Comment